آج سے تقریبا اڑھائی ہزار سال پہلے جب دنیا کے بیشترممالک جہالت کی تاریکی میں ڈوبے ہوئے تھے یونان ایک عظیم تہذیب کا گہوارہ تھا اس دور میں ارسطو اور افلاطون اور سقراط جیسے عظیم فلسفیوں نے جنم لیا انڈین یونانی مفکرین نے زندگی کے تمام پہلوؤں کا اچھی طرح سے مطالعہ کیا اور اپنی عظیم تحریروں سے ایک مضبوط علامت جسے علم سیاسیات کہا جاتا ہے کی بنیاد رکھی اللہ تو نے اپنی کتاب جمہوریہ اور ارسطو نے سیاست نامی کتاب لکھی جو ہزاروں سال گزرنے کے باوجود آج بھی علم اور عزت کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے یہ کتابیں اب سیاست کا بڑا حصہ مانی جاتی ہیں اس دور میں علم سیاسیات علیحدہ مضمون نہیں تھا اٹھارہ سو ستاسی میں علم سیاسیات کو علیحدہ مضمون کی حیثیت ملی.
شہری ریاست. یونان ایک پہاڑی ملک ہے اس کے ساتھ ساتھ چھوٹے خود مختار شہر موجود تھے میں ذرائع اور وسائل محدود تھے اسی لیے ہر شہر ایک الگ ریاست کی حیثیت رکھتا تھا انتظامی لحاظ سے خود کفیل تھے اور اپنا نظام خود آسانی سے چلا سکتے تھے اس دور میں یونان میں بلاواسطہ طریقہ انتخاب تھا شہری براہ راست حکومت میں حصہ لیتے تھے ارسطو کے دور میں تقریبا سو اٹھاون ریاستیں قائم تھی بعد میں یہ چھوٹی چھوٹی ریاستیں جنگوں اور فتوحات کی وجہ سے وسیع و عریض ریاستی بن گئی اب ایک ریاست کی شہروں اور کئی دیہاتوں پر مشتمل ہے لہذا اب اسے شہری ریاست کے بجائے صرف ریاست کا نام دیا گیا ہے
شہری.
قدیم یونان میں ہر وہ شخص جو ریاست کے معاملات میں براہ راست حصہ لیتا تھا شہری کہلاتا تھا چونکہ یونان میں بلاواسطہ جمہوریت رائج تھی اسی لیے ہر شہری کا قانون سازی انتظامی اور عدالتی امور میں حصہ لیتا تھا. ارسطو نے شاعری کی تعریف ان الفاظ میں کی ہر وہ شخص جو ریاست کے قانونی اور انتظامی معاملات میں شرکت کا حق رکھتا ہوں ریاست کا شہری ہے... یونان میں ریاست کے تمام باشندے شہری نہ تھے مزدوروں کے کسانوں غلاموں اور عورتوں کو ریاست کے معاملات میں حصہ لینے کا حق نہ تھا. اسی لئے ان کو شہری تصور نہیں کیا جاتا تھا.
جدید تصور...
دورحاضر میں غلامی کا تصور ختم ہوچکا ہے مزدوروں کسانوں عورتوں کو بھی مساوی طور پر تصور کیا جاتا ہے. لہذا آج کے دور میں ریاست کے لاکھوں کروڑوں شہریوں کا ایک جگہ پر جمع ہونا اور حکومت کے امور میں شریک ہونا ممکن ہے. ویسے بھی اس دور میں شہریوں کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ تمام کام چھوڑ کر وقت نکال سکیں. اور شہریوں کے حقوق و فرائض میں بھی بے حد اضافہ ہوگیا ہے شہریوں کو صرف قومی معاملات سے واسطہ نہیں پڑتا لکھنا بال کہ بین الاقوامی معاملات سے بھی واسطہ پڑتا ہے اور اس سے گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں لہذا شہری ڈائریکٹ امور حکومت میں حصہ نہیں لے سکتے
علم شہریت کا مفہوم.
علم شہریت کو انگریزی میں سوکس کہتے ہیں جو لاطینی زبان کے دو لفظوں سوس اور نکلا ہے جس کے معنی شہری اور شہر کے ہیں عربی زبان میں علم شہریت کو مدنیت کہا جاتا ہے مدنیت کا لفظ مدینہ سے اخذ کیا گیا ہے کہ مینی رہنے سہنے کی جگہ یا شہر کے ہیں چناچہ علم تحریر شہریت سے مراد ایسا علم ہے جو شہر اور شہری کے معاملات سے بحث کرتا ہے اب قدیم یونان کی طرح ریاست محض ایک شہر تک محدود نہیں ہے بلکہ وسیع و عریض ریاستوں کا دور ہے لہذا موجودہ دور میں علم شہریت سے مراد ایسا علم ہے جس میں شہری کی ان تمام سرگرمیوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے جو بو ایک ریاست کے رکن کی حیثیت سے انجام دیتا ہے
علم شہریت کی تعریف. علم شہریت کی چند اہم تعریفیں حسب ذیل ہیں.
1. آکسفورڈ ڈکشنری. علم شہریت میں شہریوں کے حقوق و فرائض کا مطالعہ کیا جاتا ہے
2. پروفیسر پیٹرک. علم شہریت ایسا معاشرتی علم ہے جو صرف شہریوں کی زندگی اور ان کے مسائل سے تعلق رکھتا ہے.
3. ڈاکٹر کے کے عزیز. علم شریعت معاشرے میں فرد اور ان اداروں سے بحث کرتا ہے جن کا فرد پیدائشی طور پر رکن ہوتا ہے. یا اپنی مرضی سے ان کی رکنیت اختیار کرتا ہے
4. ایف جی گولڈ. علم شہریت ان اداروں تعداد سرگرمیوں اور جذبات کے نام مطالعہ کا نام ہے جن کی بدولت ہر فرد خواہ مرد ہو یا عورت اپنے فرائض ادا کر سکے کسی تنظیم کی رکنیت سے فائدہ اٹھا سکے
5. ایم وائٹ. علم شہریت انسانی علوم کا ومفید شعبہ ہے جو شہری کی زندگی کے ہر پہلو سے بحث کرتا ہے خواہ اس کا تعلق ماضی حال اور مستقبل سے ہو یا اس کی نوعیت مقامی قومی اور بین الاقوامی ہو
علم شہریت کی وسعت. علم شہریت ایک وسیع اور جامع علم ہے زمانہ قدیم میں ریاست کا علاقہ اور آبادی محدود تھی لیکن دور حاضر میں ریاست کی آبادی اور رقبہ بہت وسیع ہے اور ریاست کے فرائض میں بے حد اضافہ ہوا ہے سائنس و ٹیکنالوجی کی ترقی اور ذرائع آمدورفت اور مواصلات میں اضافہ کی وجہ سے دنیا ایک گلوبل ویلیج کی شکل اختیار کر گئی ہے جس سے فرد کی سرگرمیوں میں بے حد اضافہ ہوا ہے اب شیریں کی سرگرمیاں محض مقامی قومی سطح پر محدود نہیں بلکہ عالمی برادری کا سرگرم رکن ہیں لہذا علمی شریعت کی وسعت میں بھی اضافہ ہوا ہے جس کو ہم درج ذیل الفاظ میں بیان کریں گے.
1. حقوق و فرائض کا موطالع. حقوق و فرائض کامطالعہ علم شریعت کا بنیادی موضوع ہے علم شہریت شہریوں کو نہ صرف سیاسی معاشی اور معاشرتی حقوق سے آگاہ کرتا ہے کی یہ بھی بتاتا ہے کہ ہم ان حقوق کا کس طرح تحفظ کر سکتے ہیں حقوق کے ساتھ شہریوں پر کچھ فرائض بھی عائد ہوتے ہیں معاشرے میں امن وامان کے قیام خوشحالی اور ترقی کے لیے جن کو پورا کرنا ضروری ہے. جہاں ریاست ہمارے جان و مال کی حفاظت کرتی ہے او سلیم تربیت کا بندوبست کرنے کی ذمہ دار ہوتی ہے وہاں ہمارا فرض ہے کے قانون کی پابندی کریں ٹیکس ادا کریں اور ریاست کے وفادار ہیں
2. نظم و ضبط کی اہمیت.
علم شہریت کے مطالعہ سے شہری میں نظم و ضبط کی اہمیت اور ضرورت کا احساس پیدا ہوتا ہے. انہیں معلوم ہوتا ہے کے نظم و ضبط اور قانون کی پابندی کے بغیر پرامن معاشرے کا قیام ناممکن ہے اور امن و امان کے بغیر معاشرہ کی خوشحالی اور ترقی کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا.
3. معاشرتی پہلو کا مطالعہ.
انسان ایک معاشرتی حیوان ہے جو معاشرے کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا فرد کی شخصیت کی تعمیر معاشرہ میں ہی ممکن ہے.
اس طرح خوشحالی اور ترقی یافتہ معاشرہ کا قیام عالیۃ سیرت و کردار کے شہریوں پر ہے خیریت میں معاشرے کے مقاصد اور اہمیت مختلف معاشرتی اداروں مثلا خاندان وغیرہ کا تفصیلی جائزہ لیا جاتا ہے.
4. معاشرتی پہلو کا مطالعہ.
دور حاضر میں معاشیات کو انسانی زندگی میں زبردست اہمیت حاصل ہے سر معاشرتی اور سیاسی تحریک کے پیچھے معاشی عوامل کارفرما ہوتے ہیں جس ملک کی عوام غریب ہوں نہ وہاں سیاسی استحکام میسر آتا ہے اور نہ ہی جمہوریت کامیاب ہوسکتی ہے فلاحی ریاست کا قیام معاشی طور پر مضبوط ممالک میں ہی ممکن ہے علم شہریت غربت بے روزگاری ان پرست معیار زندگی جیسے مسائل کا جائزہ لے کر ان کے حال کے لیے تجاویز پیش کرتا ہے تاکہ ایک خوشحال معاشرے کا قیام عمل میں آ سکے.
5. سیاسی پہلو کا مطالعہ.
علم شہریت میں شہری کی سیاسی زندگی کا تفصیل سے مطالعہ کیا جاتا ہے اس میں ریاست کی ابتداء اور ارتقاء حکومت کی اقسام رائے عامہ قانون حقوق و فرائض کا مطالعہ کیا جاتا ہے مقامی قومی اور بین الاقوامی مسائل کا جائزہ لیا جاتا ہے جس سےشہریوں میں سیاسی شعور پیدا ہوتا ہے. جو جمہوریت کی کامیابی کے لئے بے حد ضروری ہے.
6. اخلاقی پہلو کا مطالعہ.
علم شہریت ایک معیار قائم کرنے والا علم ہے. جو اچھائی اور برائی کے معیار قائم کرتا ہے یہ عالم شہریوں کو اتحاد و تعاون محبت ہمدردی رواداری انسان قربانی جیسی اچھائیوں کو اختیار کرنے اور خود غرضی تنگ نظری حسد نفرت جیسی برائیوں سے بچنے پر زور دیتا ہے. اس طرح علم شہریت شہریوں کے اخلاق کی بہترین تعمیر کرتا ہے.
7. مختلف انجمنوں اور اداروں سے تعلق.
معاشرے میں رہتے ہوئے آدمی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے مختلف انجمنوں اور اداروں مثلاً خاندان برادری ریاست سیاسی جماعتوں وغیرہ کارکن ہوتا ہے علم شہریت کی وجہ سے ہمیں ان اداروں اور ان کی اہمیت سے آگاہی حاصل ہوتی ہے اس بات کا پتہ چلتا ہے کہ ان اداروں سے تعلقات قائم کرتے وقت توازن کیسے قائم کیا جا سکتا ہے.
8. اچھے شہری کے اوصاف.
علم شہریت کے مطالعہ سے ہمیں علم ہوتا ہے کہ ایک اچھے شہری میں ذہانت دیانت داری حب الوطنی جیسے اوصاف کا پایا جانا بے حد ضروری ہے اچھی خوبیاں رکھنے والے شہری ہی ملک و قوم کی خوشحالی اور نیک نامی کا بنتے ہیں.
0 comments:
Post a Comment